January 7, 2013 - علی شیراز
تبصرہ کریں

برطانیہ میں اُردو

اردو اور برطانیہ کا تعلق کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ تعلق تقریبًا ساڑھے تین سو سال پہلےشروع ہوا جب انگریز برصغیر میں تاجرکے طور پر داخل ہوئے اور ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی۔انگریزوں نے برصغیر کی ثقافت ، زبان ، معاشرتی اور معاشی پس منظر کو عمیق نگاہ سے دیکھااو ر انھوں نے یہ محسوس کیا کہ سیاسی طاقت حاصل کرنے کیلیے انہیں اس سرزمین کی زبان سیکھنی پڑھے گی۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے انھوں نے دہلی میں فورٹ ولیم کالج  تشکیل دیا۔ اس کی بنیاد 10جولائی1800ءکو رکھی گئی۔وکی پیڈیا کے مطابق “فورٹ ولیم کالج ایک درسگاہ اور ایشائی زبانوں کاتعلیمی مرکزجو کہ (Lord Wellesley)نےقائم کیابعد میں گورنر جنرل برطانیہ برائےہندوستان ”  نے گلکرسٹ کو کالج کا سربراہ مقرر کیا گیا او ر اس نے اردو لٹریچر کے فروغ کے لئے کافی اقدامات کیے۔ملکہ وکٹوریہ نے ایک ہندوستانی مسلم کو اردو سکھانے پر مامور کیااور  اس کی تصویر شاہی محل میں ابھی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ماہنامہ افکار  (کراچی) نے ایک خصوصی اشاعت میں ٹائٹل پیج پر ملکہ وکٹوریہ کی منشی عبدالکریم  کیساتھ تصویر چھپی تھی۔ حال ہی میں بی بی سی کے براڈ کاسٹررضا علی عابدی نے ” ملکہ و کٹوریا اور مُنشی عبد الکریم” کے نام سے اپنی تحقیقی کتاب  شائع کی ہے۔

 Joshua Keterlaer John انڈیا کے لیے (Dutch)سفارتکار نے اردو کی پہلی گرائمر تقریبًا 1715میں تحریر کی تھی اور اس کو Grammatica Indostanica  کا نام دیا گیا۔  جان گلکرسٹ نے بھی اردو کی ایک گرا ئمر لکھی لیکن سب سے پہلی اردو کی گرائمر انگلش میں لکھنے کا سہرا ایک برطانوی ملٹری آفیسر جس کانام ہیڈلے تھا کے سر ہے۔ انگلستان میں دو اردو نیشنل کانفرنسز منعقد ہوئیں۔ پہلی 8دسمبر 1979 بروز ہفتہ

ایس۔ او۔ اے۔ ایس کالج لندن میں ہوئی۔ دوسری اردو قومی کانفرنس اردو مجلس یو کے نے کروائی، مختلف ثقافتوں کی تعلیم کا ایک مرکز، یہ کانفرنس 24،25 اپریل 1981کو لندن میں منعقد ہوئی۔ دونوں کانفرنسوں کو انگلستان میں اردو تعلیم کے حوالے سے بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔

 رالف رُسل  Ralph Russell اردو ادب کا ایک برطانوی عالم تھا جسکو بر طانوی بابائے اُردو بھی کہا جاتا ہے۔ اُنھوں نے برطانیہ میں اُردو کو مشہور کرنے اور ترقی دینے میں غیرمعمولی کام کیا جسکو ہمیشہ سراہا جائے گا۔

 کمیونٹی لینگوئجز ان ہائر ایجوکیشن رپورٹ 2008کے مطابق اردو یو کے میں سب سے زیادہ بولی جانے والی اور نمایاں زبان ہے۔

برطانوی ایشین لوگوں کے ایک بہت بڑے گروپ میں اردوپہلی یا دوسری زبان کے طور پر بولی جانے والی زبان ہے۔ یہ انگلستان میں مہاجرین اور ان کی نسلوں میں کافی زیادہ بولی جاتی ہے۔ جیسا کہ بی بی سی اردو ویب سائٹ بیان کرتی ہے۔ “یوکے میں اردو بولنے والی کمیونٹی  کے ارکان کی تعداد دس لاکھ ہے”۔ انگلستان میں اردو بولنے والی کمیونٹی ہندی بولنے والی کمیونٹی سے بہت بڑی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر جو اپنے آپ کو اردو بولنے والے کے طور پر شناخت کرواتے ہیں وہ پنجابی کی مختلف اقسام کو گھر کی زبان اور اردو کو مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر دوسری زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔غالب اکثریت مغربی پنجاب اور آزاد کشمیر کے ضلع میرپور سے آئی ہے بلکہ ہندوستان اور مشرقی افریقہ سے آنے والے گجراتی مسلمان بھی اردو کو مذہبی مقاصد کیلیے استعمال کرتے ہیں جیسا کہ بی بی سی اردو ویب سائٹ پر ذکر کیا گیا ہے۔

 David Mathews نے  اسلام آباد میں پانچ روزہ منعقد کی گئی بین الاقوامی اردو کانفرنس میں اپنی تقریر میں کہا،” یو کے میں اردو چوتھی بین الاقوامی زبان کے طور پر جانی جاتی ہے۔”

برطانیہ میں بولی جانے والی پنجابی اور میرپوری زبان  الفاظ اور اصطلاحات سے بھرپور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یو کے میں رہنے والوں کی اکثریت  پاکستانی نسل ہےجو حقیقت میں پاکستان کے شمال میں ضلع میرپور جو کہ پنجاب کیساتھ ہے، سے آئی ہے۔برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی تین جنوبی ایشائی کمیونٹیز میں سے دوسری بڑی کمیونٹی ہےجس کی آبادی 899000ہے۔

  سلٹ  سروے 1995 کے مطابق اردو انگلستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کمیونٹی زبان ہےاور 69 لوکل ایجو کیشن  اتھارٹیز اردو کی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مادری زبان ایک بچے کی مستقبل کی نشوونما میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے اور مادری زبان ہمارے دماغ کی طاقت کو بڑھاتی ہے۔ اور ہمارے جذباتی اظہار کو مضبوط کرتی ہے۔اردو کے مستقبل کی افزائش والدین کے ہاتھوں میں ہے اگر وہ اس انتہائی ذمہ داری کو محسوس کریں اور مادری زبان کا بیج بچپن میں ہی بو دیں تو اردو زبان کا مستقبل ایک بہتر شکل میں ڈھل سکتا ہے۔ انگلستان میں اردو کو باقی رکھنے کی ذمہ داری والدین ، کمیونٹی اور موجودہ اساتذہ پر  ہے۔جیسا کہ گوپی چند نارنگ نے انٹرنیشنل اردو کانفرنس اسلام آباد 2005کے دوران اپنی تقریر میں کہا  تھا۔ “اردو ایک فنکشنل زبان ہے اور فنکشنل زبان کبھی نہیں مرتی، اردو کا ماضی بڑا شاندار تھا ،اسکا حال محفوظ ہے اور مستقبل قابلِ ضمانت ہے۔ اردو کو روکا نہیں جا سکتا۔ صحیح معنوں میں یہ وہ زبان ہے جو معاشرے کی ثقافتی پیاس بجھاتی ہے۔”

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *