July 26, 2012 - علی شیراز
تبصرہ کریں

ڈاکٹر صاحب!

ڈاکٹر صاحب دارالعلوم بولٹن میں پرنسپل ہیں اور میری  پی  جی سی کے دوران میرے  تدریسی اتالیق بھی رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی  علمی راہنمائی اور  تدریسی مشاورت کے  بغیر شا ید میری پی  جی سی اُدھوری رہتی! میں نے ڈاکٹر صاحب کا یہ خاکہ  اپنی پہلی پلیسمنٹ کے دوران لکھا۔ 

ڈاکٹر شاہد جہانگیر حنیف ، نام پڑھکر لگتا ہے تین آدمی ہیں  اور کام د یکھ کربھی ایسا ہی لگتا ہے۔ دارالعلوم ۔دار کے معنی دروازہ اور علوم علم کی جمع ہے ۔ جس کے معنی علموں کا دروازہ بنتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کی ڈگریوں کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہےکہ آپ واقعی دارالعلوم میں ہیں۔ دارالعلوم ڈاکٹر صاحب کے بغیر ادھورا سا لگتا ھے اور ڈاکٹر صاحب بھی دارالعلوم کے بغیر ! جس دن ڈاکٹر صاحب دارالعلوم میں موجود نہ ہوں تو بچے ادب اور اساتذہ کلاسیں بھول جاتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب چراغ راہ کی طرح سبھی کو رستہ دکھاتے ہیں کبھی مشعل لیکر اور کبھی ڈانڈا لیکر ۔   یہ وہ واحد ڈاکٹر ہیں جن کے ہاتھ میں ، میں نے ڈانڈا دیکھا۔

دارالعلوم میں ڈاکٹر صاحب کو چھوڑ کر باقی سبھی مولانا  صاحب ہیں ۔ڈاکٹر صاحب جب ان کے درمیان موجود  ہوتےہیں تو  ایسا لگتا ہے جیسے شمع کے گرد پروانے منڈلا رہے ہوں۔

ڈاکٹر صاحب جب غصے میں ہوتے ہیں تو شیر کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ایسے دیکھتے ہیں کہ اچھا خاصا آدمی لرز جاتا ہے ۔لیکن آپ کی جس بات پر ڈاکٹر صاحب کو غصہ آتا ہے وہ بات ابھی پوری نہیں ہوتی ان کا غصہ پہلے پورا ہو چکا ہوتا ہے کیونکہ انکا غصہ بھی پیار میں ایسے ہی بدلتا ہے جیسے یہاں کا موسم! ویسے بھی ڈاکٹر صاحب دارالعلوم کے بچوں کو ماں کی طرح پیار کرتے ہیں بس رویہ ذرا باپ جیسا رکھتے ہیں۔

میں نے ڈاکٹر صاحب کو کبھی فارغ نہیں دیکھا ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے ہیں۔ اُنہیں اگر کوئی سزا  دی جا سکتی ہے تو وہ ہے ”آرام کریں”  اور آرام میں بھی  وہ سپاری چبائیں گے ۔یعنی کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب  وہ چراغ  ہیں جس کے تلے اندھیرا  نہیں اور  روشنی ایسی کے قریب آ کر مکڑے بھی جگنو بن جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی یہ روشنی سلامت رکھے! آمین!

کہتے ہیں نقل کے لیےعقل چاھیے حا لانکہ اب تو عقل کی بھی نقل دستیاب ہے ۔ یوں عقل مندی اب نقل مندی ہو کر رہ گئی ہےلیکن ڈاکٹر صاحب کی نقل ڈھونڈنا بھی محال ہے ۔ حالانکہ دارالعلوم کو ایک اور ڈاکٹر کی  ضرورت ہے کیونکہ مریضوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے اور اگر   یہی سلسلہ رہا تو وہ دن دور نہیں جب ڈاکٹر صاحب بھی مریض بن جائیں گے۔اللہ کرے وہ دن کبھی نہ آئے کیونکہ بقول اقبال: بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *